طالبان کی تاریخ اور نظریے کے بارے میں کچھ اہم حقائق

 



السلام علیکم ناظرین۔۔۔ 

ائی میڈیا میں خشمدید -

اس ویڈیو میں ہم آپکو طالبان کی تاریخ اور نظریے کے بارے میں کچھ اہم حقائق بتا اینگنے :

اس سے پہلے اگر آپ نے ابھی تک ہمارا چینل سبسکرائب نہیں کیا تو چینل کو سبسکرائب کریں تاکہ اس طرح کی مزید Informative ویڈیوز آپ تک پہنچتی رہیں ۔۔۔


پشتو زبان میں طالبان کا مطلب ’طلباء‘ ہے جو 1994 میں جنوبی افغان شہر قندھار سے ابھرے۔ یہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لڑنے والے افغان جنگجو گروپوں میں سے ایک تھے۔


طالبان میں شامل اکثریت ان مجاہدین کی تھی جنہوں نے امریکا کی مدد سے 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔


طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر تھے جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے

1994 میں سامنے آنے کے بعد دو سال کے اندر طالبان نے کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔ 1996 میں اسلامی قوانین کی تشریح کے ساتھ خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جب کہ اقتدار کے لیے لڑنے والے دوسرے مجاہدین گروہ ملک کے شمال میں چلے گئے اور پھر وہیں تک محدود رہے۔


11 ستمبر 2001 کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکی افواج، شمالی اتحاد اور دیگر طالبان مخالف جنگجو نومبر میں بھاری امریکی فضائی حملوں کی آڑ میں کابل میں داخل ہوئے۔


جب کہ طالبان دور دراز علاقوں میں روپوش ہوگئے، جہاں سے انہوں نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف 20 سالہ طویل جنگ شروع کی۔


طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر تھے جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے۔ ملا عمر کے ٹھکانے اتنے خفیہ تھے کہ 2013 میں ان کی موت کی تصدیق بھی ان کے بیٹے نے انتقال کے دو سال بعد کی۔


طالبانوں کا نظریہ کیا رہا آئیے اس پر نظر ڈالتے ہیں ؟


اپنے پانچ سال کے اقتدار کے دوران طالبان نے سخت شرعی قوانین نافذ کیے۔ انہوں نے خواتین کو بنیادی طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔



ان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں جب کہ مغربی فلموں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔


مخالفین اور مغربی ممالک طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے کنٹرول والے علاقوں میں حکمرانی کی پرانی طرز پر واپس آنا چاہتے ہیں مگر طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔


تاہم، طالبان نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرے۔


طالبانوں ١٩٩٦ میں بننے والی حکومت کو  عالمی توثیق کیا حاصل ہوئی آئیے اسپر اک بار نظر ڈالتے ہیں ؟


90 کی دہائی میں بننے والی طالبان حکومت کوپاکستان سمیت صرف چار ممالک نے تسلیم کیا۔


جب کہ دیگر ممالک کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کابل کے شمالی صوبوں میں اقتدار رکھنے والے گروہ کو حکومت کا حقدار قرار دیا۔ امریکا اور اقوام متحدہ نے طالبان پر پابندیاں عائد کیں اور بیشتر ممالک نے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔


القاعدہ کی 'پناہ گاہیں'


دنیا کی توجہ صحیح معنوں میں طالبان پر اس وقت پڑی جب نیویارک میں 9/11 کے حملے ہوئے۔ طالبان پر ان حملوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔

سات اکتوبر 2001 کو امریکہ کی سربراہی میں اتحادی ممالک کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت چند اہم اشخاص کی تلاش میں دنیا کی سب سے بڑی مہمات چلائی گئیں لیکن اسامہ بن لادن، طالبان کے رہنما ملا محمد عمر اور دیگر سینیئر رہنما بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔


اکثر سینیئر طالبان کمانڈروں نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پناہ لی اور وہاں سے انھوں نے طالبان کو ہدایات دینا شروع کیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ’کوئٹہ شوریٰ‘ کی موجودگی پر لاعلمی کا اظہار کیا جاتا رہا۔


افغانستان میں غیرملکی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان نے آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول واپس لیا اور پھر اس میں اضافے کرتا گئے۔

اگست سنہ 2015 میں طالبان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انھوں نے ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھا جن کی وفات اطلاعات کے مطابق پاکستان کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔

طالبانو کے نۓ سربراہ ملا منصور مئی 2016 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے-اور ان کے متبادل کی حیثیت سے ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا-

غیر ملکی افواج کی موجودگی اور افغانستان سیکیورٹی فورسز کی تربیت اور اسلحے کی فراہمی پر اربوں ڈالر خرچ کیے جانے کے باوجود طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکا اور ملک کے دور دراز علاقوں میں ان کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ وہ ان علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کرتے رہے اور اپنی طاقت میں اضافہ کرتے رہے۔-

جنوب میں فریاب کی پہاڑیوں، شمال مغرب کی پہاڑیوں اور شمال مشرق میں بدخشاں کے پہاڑوں میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کو نہیں روکا جا سکا۔

فغان حکام کی جانب سے بین الاقوامی مدد کے بغیر طالبان کا مقابلہ نہ کر سکنے کے خدشات کے باوجود امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے اپریل 2021 میں اعلان کیا کہ تمام امریکی افواج افغانستان چھوڑ دیں گی۔


ایک عالمی قوت کو دو دہائیوں تک اپنے اوپر حاوی نہ کرنے والے طالبان نے اب تیزی سے متعدد علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا شروع کر دیا ہے اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے افغانستان پر قبضہ کرلیا -


طالبان اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور نیٹو کے اندازے کے مطابق ان کے لشکر میں اب 85 ہزار جنگجو شامل ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز بھی رہی ہے۔ جنرل آسٹن ملر جو افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں موجود مشن کے کمانڈر ہیں نے جون میں خبردار کیا تھا کہ ملک میں بدترین خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے جو دنیا بھر کے لیے ’خدشےکا باعث بن سکتا ہے۔‘


امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ہی گر سکتی تھی تاہم طالبان انخلا کی حتمی تاریخ سے پہلے ہی کابل پہنچ کر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیے - دوستو اگر آپ کو ویڈیو اچھی لگی تو اسے اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور شیئر کریں۔۔۔ ہمیں اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ 


ملتے ہیں ائی میڈیا  کی نئی ویڈیو تب تک کیلئے اللہ حافظ


Sources: https://urdu.geo.tv/latest/261656

https://www.bbc.com/urdu/regional-57807203





Comments

Popular posts from this blog

Real History of Cerkutay in Kurulus Osman

How to Watch Kurulus Osman Series - All seasons (1-2) - English / Urdu Subtitles

Kumrul Abdal History Urdu - کمرل ابدال